زیادہ تر لوگ نسلی طور پر مصر میں رہنے کی ثقافت کی پیروی کرتے ہیں، اور جب کسی قوم کا عظیم شخص یہ سوچتا ہے کہ مصری ثقافت کے حالات کیا ہیں، تو لوگوں کو ان اصولوں کو سنجیدگی سے لینے کے قابل ہونا چاہیے
مصر ایک جمہوریہ ہے جو نیم صدارتی نظام سے چلتی ہے۔ مصر کے سیاسی نظام کا تعین 2014 میں منظور کیے گئے آئین سے ہوتا ہے۔ آئین قانون سازی، انتظامی اور عدالتی اداروں کے اختیارات کو منظم کرتا ہے۔ مصر کا اعلیٰ ترین قانون ساز ادارہ دو ایوانوں والی پارلیمنٹ پر مشتمل ہے۔ اسمبلیوں کو ایوان نمائندگان (المجلس المشار) اور مشاورتی اسمبلی (المجلس الشوری) کہا جاتا ہے۔ جب کہ ایوان نمائندگان عوام کے ذریعے منتخب کیے گئے 596 ارکان پر مشتمل ہے، مشاورتی کونسل میں 270 ارکان ہیں۔ اسمبلیاں قانون سازی کے عمل کو انجام دیتی ہیں اور مسودہ قوانین کا جائزہ لیتی ہیں۔
مصر افریقہ کے شمال مشرقی ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کی سرحد مغرب میں لیبیا اور جنوب میں سوڈان سے ملتی ہے۔ مصر کی سرحد شمال میں بحیرہ روم سے، زمین پر جزیرہ نما سینائی پر اسرائیل اور غزہ کی پٹی پر فلسطین سے ملتی ہے ۔ مصر کے شمال میں بحیرہ روم کے قریب ہونے کی وجہ سے عام طور پر خوشگوار آب و ہوا ہے۔ مصر کے شمال میں بحیرہ روم کے قریب ہونے کی وجہ سے عام طور پر خوشگوار آب و ہوا ہے۔ اس ملک میں مشرقی اور مغربی صحراؤں اور گرم موسم کی کچھ درجہ بندییں ہیں۔ سرد سردیاں بعض اوقات پورے مصر میں ہوتی ہیں جہاں درجہ حرارت صفر سے 25 ڈگری تک کم ہوتا ہے۔
مصر کی ایگزیکٹو برانچ کی نمائندگی صدر کرتے ہیں۔ صدر کا انتخاب براہ راست عوام کرتے ہیں اور اس کے عہدے کی مدت چھ سال ہوتی ہے۔ صدر حکومت کا سربراہ اور ریاست کا اعلیٰ ترین نمائندہ ہوتا ہے۔ صدر کے پاس وزراء کی تقرری اور برطرفی کا اختیار ہے۔ حکومت کے وزیر اعظم کا تقرر صدر کرتا ہے۔ مصر کا عدالتی نظام آزاد ہے اور سپریم کورٹ عدالتی ادارے کا سربراہ ہے۔ سپریم کورٹ اپیل کی آخری قانونی عدالت ہے۔ اس کے علاوہ، آئینی عدالت آئینی نقطہ نظر سے انتظامی مقدمات کی نگرانی کرتی ہے۔
اس ملک میں مشرقی اور مغربی صحراؤں اور گرم موسم کی کچھ درجہ بندییں ہیں۔ سرد سردیاں بعض اوقات پورے مصر میں ہوتی ہیں جہاں درجہ حرارت صفر سے 25 ڈگری تک کم ہوتا ہے۔ گرمیاں گرم ہوتی ہیں اور موسم بہار میں گرد آلود ہوتا ہے۔ اس ملک میں مون سون کے کئی طوفان آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس ملک میں تعمیرات سے جی ڈی پی 1% ہے۔ واضح رہے کہ اس ملک میں کانوں کی جی ڈی پی پالیسیوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا اور مصری معیشت جو کہ پبلک ٹرانسپورٹ سیکٹر کی جی ڈی پی پر منحصر ہے، میں بھی 4 فیصد اضافہ ہوا۔
مصر میں سیاسی ڈھانچہ عام طور پر مرکز میں سیاسی قوتوں کے گرد تشکیل پاتا ہے۔ مصر میں سیاسی جماعتیں کام کرتی ہیں، لیکن معاشرے میں سیاسی تکثیریت کی سطح محدود ہے۔ پوری تاریخ میں مصر میں فوجی قوتوں کا سیاسی اثر و رسوخ بھی نمایاں رہا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ سیاسی ماحول اور ڈھانچہ وقت کے ساتھ بدل سکتا ہے۔ اس لیے مصر کی موجودہ سیاسی صورتحال اور ساخت کے بارے میں جاننے کے لیے قابل اعتماد ذرائع سے تازہ ترین معلومات سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔
گرمیاں گرم ہوتی ہیں اور موسم بہار میں گرد آلود ہوتا ہے۔ اس ملک میں مون سون کے کئی طوفان آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس ملک میں تعمیرات سے جی ڈی پی 1% ہے۔ واضح رہے کہ اس ملک میں کانوں کی جی ڈی پی پالیسیوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا اور مصری معیشت جو کہ پبلک ٹرانسپورٹ سیکٹر کی جی ڈی پی پر منحصر ہے، میں بھی 4 فیصد اضافہ ہوا۔ بلاشبہ، اس ملک میں مالی اور آمدنی کے وسائل پر سنجیدگی سے نظر رکھی جاتی ہے اور اس ملک میں اقتصادی ترقی کی صورت حال کا مستقل قدروں سے جائزہ لیا جاتا ہے۔
اس ملک میں کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کا اعلان 1538.90 ملین امریکی ڈالر کے طور پر کیا گیا تھا۔ حالیہ برسوں میں اس تجارتی قدر میں کمی آئی ہے۔ اس ملک میں جی ڈی پی کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ کی پوزیشن گزشتہ ادوار میں منفی تھی، اور 2020 میں یہ اعداد و شمار 8.70 فیصد بتائے گئے تھے۔ مصر کے درآمدی اور برآمدی شعبوں میں 7 فیصد اور 3 فیصد کی شرح نمو کے ساتھ جو صورتحال دیکھی گئی ہے۔ مصر کے غیر ملکی قرضوں میں بھی 9 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ مصر میں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح عام طور پر 25 فیصد کے لگ بھگ ہے، مصر میں ذاتی انکم ٹیکس کی شرح جو پہلے 22.50 فیصد تھی، اب 34.00 فیصد ہے۔ اس ملک میں سیلز ٹیکس کی شرح، جو پچھلے سالوں میں 10 فیصد تھی، آج 14 فیصد بتائی جاتی ہے۔
مصر میں سماجی تحفظ کی شرح بھی 40.00 فیصد بتائی گئی ہے، لیکن یہ شرح پچھلے سالوں سے آج تک برقرار ہے۔ مصر میں لوگوں میں عجیب و غریب روایات اور توہمات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اور ان کی ثقافت کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ نسلی طور پر مصر میں رہنے کی ثقافت کی پیروی کرتے ہیں، اور جب کسی قوم کا عظیم شخص یہ سوچتا ہے کہ مصری ثقافت کے حالات کیا ہیں، تو لوگوں کو ان اصولوں کو سنجیدگی سے لینے کے قابل ہونا چاہیے۔